زمانے کی میں یادگاری بدل
لیکھیا قصہ تجھ ناؤں سوں یو نول
داغ غم تیرے تغافل کی نشانی ہے مجھے
جان جانے لگ رہوں گا یادگاری میں تری
جو وہ پوچھے مرے احوال کو قاصد تو یہ کہنا
دعا کرتا ہے تم کو اور تمہاری یادگاری ہے
رکھو معذور یارو فرق ہو گر رسم یاری میں
کہ سب کچھ ہم بھلا بیٹھے کسی کی یادگاری میں
ہے بتوں کی یادگاری بھی خدا کی یاد بھی
اے تصور اب ہمارا دھیان پورا ہو گیا
کوئی ہمہ وقت اس کی یادگاری میں لگا ہے کوئی اس سے کم ، کوئی اس سے کم
(۱۸۹۹ ، رویائے صادقہ ، ۱۱۲)
بتیماں کو سنبھالو ہور غریبی میں سکھا لو ہور
بہوت میراں سوں پالو ہو رہے گی یادگاری بھی
اتہی تمنا سو روشن صف ہماری
کرو ہمنا وصیت یادگاری
داغ ہوں طرز تغافل سیں تری اے لالہ زد
قبر میں لے جاؤں گا یہ یادگاری الحفیظ
اب جی میں یوں آئی کہے اس داستان شیریں کو نثر کروں کہ اس ہیچمدان کی ایک یادگاری دنیا میں رہے .
(۱۸۰۲ ، نثربے نظیر ، ۳)
چلتہ اور زین شاہ ٹیپو کا بھی یادگاری کے لیے رکھا تھا .
(۱۸۴۷ ، عجائبات فرنگ ، ۲۹)
تاکہ رکھیں اس کو تمہاری یاد گاری کے واسطے
(۱۹۱۷ ، القرآن الحکیم (ترجمہ) ، مولانا محمود الحسن ، ۹۷۲)
خدیجہ کی یادگاری پیغمبر صاحب جب فاطمہ کو دیکھتے ہوں گے ضرور ان کو خدیجہ یاد آتی ہوں گی .
(۱۹۰۷ ، امہات الامہ ، ۹۶)
جب تم نماز (خوف) پوری کر چکو تو (آس کے بعد) کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کی یادگاری میں لگے رہو .
(۱۸۹۵ ، قرآن مجید (ترجمہ) ، نذیر احمد ، ۱ : ۱۲۹)