خیر میں شکنتلا ہی سے ملے لیتا ہوں میری بھگتی کا سندیسہ وہ اپنے بابا کو سنا ہی دیں گی .
(۱۹۳۸، شکنتلا ، اختر حسین ،۴۱)
ایسے مہاتما کو چھوڑ کر اب ہم اور کسی کی بھگتی نہ کریں گے .
(۱۹۳۶ ، پریم چند ، خاک پروانہ ،۱۶۰)
دل کانپ رہا ہے التجاؤں سے ہنوز
اک کیف ہے بھگتی کی صداؤں میں ہنوز