ٹھیل پر بیٹھے ہوگے شاید ، تمہارے باوا بھی کبھی اکے پر چڑھے تھے .
(۱۹۵۹، محمد علی ردولوی ، گناہ کا خوف ، ۱۰۹)
اسباب کی ٹھیل اسٹیشن سے واپس آگئی .
(۱۸۸۹، سیر کہسار ، ۱ : ۱۰۹)
میں اور پرنس دونوں ایک ٹھیل میں بیٹھ کر کان کے اندر گئے .
(۱۹۰۴، سوانح عمری ملکہ و کٹوریا ، ۳۲۹)