محبوبی ہے تو یو بے تابی کیا خاطر ۔
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۲۳۹)
ہمیں بھی ہیں سب وجہ کی خوبیاں
جوکچھ چاہئیں ویسی محبوبیاں
جوگ کھودے ہے گرچہ محبوبی
اور عالم کی یاں بڑھی خوبی
کیا نظر گاہ کی کروں خوبی
نظریں اُٹھتی نہیں یہ محبوبی
اس کی خوبیاں اور محبوبیاں سن کر ایک عورت کو اشتیاق پیدا ہوا ۔
(۱۸۸۳ ، دربار اکبری ، ۷۸۲)
اور بھی نکھرتا ہے حسن ِروئے محبوبی
گرمی ِتمنا سے رنگ جب پگھلتا ہے