یہ ہے لکھنؤ میں تو لندن میں وہ
پلا کرتی ہے میرے دامن میں وہ
پل رہے ہیں ضمیر میں طوفاں
دردمندوں کی خاموشی پہ نہ جاؤ
دیکھ خربوزہ تری فالیز کا
پک چکا ہے بلکہ اب پلنے لگا
نہ رہی اب ثمر عشق میں وہ کیفیت
بے مزہ ہوتا ہے وہ میوہ جو پل جاتا ہے
سدا برت بھی ان کا رہتا تھا جاری
کہ پلتے تھے جس سے ہزاروں بھکاری
اگرچہ دیہات میں پلی پسی تھی ، مگر چالاکی شوخی شرارت رگ رگ میں بھری تھی.
( ۱۹۳۱، رسوا، اختری بیگم، ۱۴۵ )
اظفری مضموں کسی شاعر کا رات
دل میں کانٹا سا مرے پلتا رہا
یہ بکرا خوب پلا ہوا ہے.
( ۱۹ شبد ساگر، ۶ : ۲۸۸۹ ) .