گئیں بھول آگے کی بھیڑیں جو بٹیا
اسی راہ پر پڑ لیا سارا گلا
لڑکھڑاتے ہوئے سڑک لیکھ اور بٹیا چھوڑ کر کھیتوں کی باہن سے گزرتے
(۱۹۲۱ ، گاڑھے خان کا دکھڑا ، ۱۲)
وہ ایسا ہی ٹکڑا ہوگا جیسے چھت میں کی پٹیا یا پتھر میں کی بٹیا
(۱۸۷۶، تہذیب الاخلاق ، ۲ : ۳۰۲)
لمبی داڑھی بٹیا سا سر خشخاشی بال ، گوری رنگت.
(۱۹۲۸، آخری شمع ، ۶۵)
ایک طرف مہا دیو کی بٹیا دھری ہے
(۱۹۱۱ ، ظہیر ، داستان غدر ، ۶۸)