گل دنیا کوں زیب تاج نہ کر
یہ ہے ارپا تلک محیل و دغل
لاتا نیرنگ سے ہے رنگ نئے چرخ محیل
واہ بگڑا ہے کچھ اس خم میں عجب رنگ سے نیل
لاتا نیرنگ سے ہے رنگ نئے چرخِ محیل
واہ بگڑا ہے کچھ اس خم میں عجب رنگ سے نیل
جب کاریگر اس قدر محیل ہیں تو آپ بھی مطلق التفات نہ کریں
(۱۹۰۰ ، امیر مینائی ، مکاتیب ، ۳۳۲)
محیل و مفسدہ کار و مزوِر و محتال
عقیدہ محتمل اس کا ، معاہدہ مزعم
ایجاب اس طرح کہ محیل کہے کہ میں نے تیرے قرض کا حوالہ فلاں شخص پر کیا اتنے درم کا
۔ (۱۸۶۷ ، نور الہدایہ ، ۳ : ۵۹)