ایک شہر میں دو بھائی تھے توام، پرورش یافتۂ ناز و نعم.
(۱۸۲۴، فسانۂ عجائب، ۱۷۶)
ہم دونوں اس طرح بغل گیر ہو گئے گویا توام پیدا ہوے تھے.
(۱۹۳۸ ، بحر تبسم، ۳۰۱)
دل صد چاک ہے گل خنداں
شادی و غم جہاں میں توام ہے
حیا اور ایمان دونوں توام ہیں یعنی حیا کے ساتھ ایمان اور ایمان کے ساتھ حیا ہے.
(۱۸۷۵ ، اخلاق کاشی، ۳ : ۳۱)
سادگی اور صداقت توام ہیں.
(۱۹۳۶ ، خطبات عبدالحق، ۸۵)