گھوڑے ہور سواراں زآب اندروں
آے تیر کر پانی میں تے بروں
زمین پر چلنا، دریا میں تیرنا یه سب جانتا ہے.
(۱۸۱۰، اخوان الصفا، ۷۷).
دریا میں رہنا ہے تو تیرنا سیکھنا ہی پڑے گا.
(۱۹۰۶، الحقوق و الفرائض، ۱ : ۴۴).
اب حکومت پر ہماری سیر کر
کیونکه آتی ہے سوئی یا ں تیر کر
اس میں زیور کا عکس پڑتا . . . جیسے کنول دریا میں تیرتے ہیں.
(۱۸۸۲، طلسم ہوشربا،۱: ۹۴۴).
ماتھے پر بالوں کی ایک لڑی تیری اور اس کی رفتار سبک اور تیز ہوجاتی.
(۱۹۴۰، جزیرے ، ۵۴).
حلق پر خنجر ابرو ہو رداں یا که نه ہو
جگر و دل میں گہی تیغ نظر تیر تو ہے
جنازہ وہ لاتے ہیں یادش بخیر
نکل اوچھری اب کلیجے میں تیر