اپیں گرد ہو شہ کوں میانی دھریاں
وہاں تی ہوا میں چلیاں اڑپریاں
اڑتا ہے جب غبار در ہو تراب کا
ہوتا ہے سرمہ چشم مہ و آفتاب کا
کیا تاب جو اڑنے میں براق اس کا ہو دمساز
وہ تخت سلیماں ہے یہ جبریل کی پرواز
بھلا مجھ سے اُڑ سکتی تھی ، سمجھ گئی حضرت عشق آئے.
( ۱۸۹۰ ، بوستان خیال ، ۶ : ۸ ).
توتو کیا مال ہے کیا چیز ہے اور کون بلا
گر پری ہم سے اڑے چھوڑ دیں اس کا سایہ
چھپتی ہے کوئی بات چھپائے سے سربزم
اڑتے ہو جو تم ہم سے تو اُرتی ہے خبر بھی
کس ماہ وش کے شوق میں اڑتی ہے اس کی آنکھ
گردوں کی آنکھ پسر پسر کاہ ہلال ہے
اڑ کے آیا جو سمند شہ والارن میں
سب یہ سمجھے کہ ہما جوڑ کے شہپر آیا