سلطان محمود نے فقط دفع الوقتی کے لیے یہ مدارات کی باتیں بنائی تھیں
(۱۸۹۷ ، تاریخ ہندوستان ، ۵ : ۴۵۳)
احکام الہٰی جو قرآن مجید میں نازل ہو رہے تھے سر تا پا اہل کتاب کے ساتھ مداراۃ اور معاشرت کی ترغیب میں تھے
(۱۹۱۱ ، سیرۃ النبیؐ ، ۱ : ۳۶۷)
نہیں اپنوں سے امید مدارات
تو کیا غیروں سے ہو چشم مراعات
روز ناجی کوں بُلاتے ہو سجن
آج آیا ہوں مدارات کرو
ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میر
یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے
اور بڑی خاطرمدارات ہونے لگی
(۱۸۹۶ ، فلورا فلورنڈا ، ۲۵۳)
یوں تری چشم مدارات پہ دل بُھولا ہے
نشہء مے پہ جوانی کا گماں ہو جیسے
۔ عید کا جشن دعوت و مدارات کے ساتھ منایا گیا
(۱۹۸۹ ، بزمِ تیموریہ ، ۷۰)