کسی جا سن رسیدہ عورتیں برقعہ پوش ، کرتی ، ازاربند ، گڑیاں ، پیچکیں لیئے موجود.
( ۱۸۶۱ ، فسانۂ عبرت ، ۳۳ )
میں نے سوئی پیچک ، مومی موتی . . . مول لے کے ٹوکری میں رکھیں.
( ۱۹۲۷ ، ’اودھ پنچ‘ لکھنؤ ، ۱۲ ، ۲۷ : ۹ )
کلی پیچک ہے قاتل کی چٹکنا ہے صدا اس کی
ہے ٹہنی گل کی تلوار اور سر پھولوں کی ڈالی ہے
کرے کیونکر نہ زخمی تل کی گولی
کہ پیچک ہے ترے گیسو کا ہر پیچ
وہ اس ٹھاٹ سے آتے ہیں رہ گزر میں
تپنچے کی پیچک ہے نازک کمر میں
بنکیتی میں نہ فرق آے گا پٹکا کھول کر رکھیے
کمر پتلی ہے پیچک باندھیے تار بریشم سے
جوان نے دیکھ وہ وقت اور سمایا
بنا کر دل سے پیچک خوش ہو گایا
گالوں میں جو لالے کی پیچک ہیں ، سو یہ پیچک نہیں ہیں بھنور ہے کہ جہاں من عاشق کا پڑتا ہے سو نہیں نکلتا.
( ۱۷۴۶ ؟ ، قصہ مہر افروز و دلبر ، ۳۸ )