شاید کوئی مصلحت فوت ہو جاے اور تدارک اس طرح کا بن نہ آے.
(۱۸۰۱ ، باغ اردو ،افسوس ،۲۴۲)
کالج کو جو نقصان پہنچا تھا اس کے تدارک کی فکر سے بھی غافل نہ تھے.
(۱۹۳۸، حالات سرسید، ۶۷)
اب بتا کہ تدارک دشمن کے دفع کا کس طرح پر کیا جائے .
(۱۸۳۸، بستان حکمت ، ۲۵۱)
کسی کی یاد نے ٹھرا لیا جو دل کو تو کیا
کوئی تدارک بیتابی جگر نہ کیا
ہم کس سے داد خواہ ہوں انصاف کیجئے
اس دستمبر کا ہے تدارک تمھارے ہاتھ
مگر یہ کوئی مشکل نہ تھی جس کا تدارک نہ ہو سکے.
(۱۹۳۲، اقبال نامہ، ۲: ۳۶۷)
مفسد سر اٹھا رہے تھے چاہا کہ ان کو تداتک دے.
(۱۸۲۴، سیر عشرت، ۴۲)