خیالوں نے کیا ہے ان کے سن مجھ
رہے ہے رات دن جنگلے کی دھن مجھ
جو گیا گائیں اور کبھی جنگلا
ٹھمری گائیں کبھی کبھی ٹپا
بہاگ کے بعد جنگلا ... یہ معلوم ہوتا تھا کہ ہر سوز میں راگنی نے جنم لیا تھا .
(۱۹۳۶، قدیم ہنر و ہنرمندان اودھ ، ۸۶)
آواز جادو طراز سوہنی سوہنی ... سندھ کے جنگلے میں وجد کرتی تھی.
(۱۸۱۴، نور تن ، ۱۲۸)
مغنیوں نے ہمیر کی راگنی اور جنگلے میں ناگر کا یہ خیال گانا اور بجانا شروع کیا.
(۱۹۵۷، لکھنؤ کا شاہی اسٹیج ، ۷۴)
جب پنجرے سے چھٹ جاتے ہیں تو درختوں پر جاتے ہی اپنا جنگلا بولنے لگتے ہیں.
(۱۸۸۷، سخندان فارس ، ۲ : ۴۶)