جس طرح دو چمک پتھر کے بیچ میں پڑتا ہے لوہا سو ادھر جائے سکے نہ ادھر جائے سکے.
(۱۷۴۶ ، قصہ مہر افروز و دلبر ، ۱۸۲).
سنگ مقناطیس ایک جسم جمادی ہے...کہ جس کو چمک پتھر کہتے ہیں.
(۱۸۵۶ ، فوائد الصبیان ، ۱۳۰)
اب عمرو نے چمک پتھری نکال کے ایک کاغذ نکالا اور اس کو لپیٹ کر جلایا.
(۱۸۹۰ ، طلسم ہوشربا ، ۴ : ۱۲۶۹)