یہ کُوچۂ عشق ہے وہ ڈھرّا کہ مِٹ گیا میرے دل کا غرّا
ہوا رہِ کُفر کا وہ ذرّا جو تھا ستارہ سپہرِ دیں کا
ہم مارے مارے پِھریں نہ راستہ ہے نہ کوئی پگ ڈنڈی نہ سڑک نہ ڈَھرّا
(۱۸۹۲ ، خدائی فوجدار ، ۱ : ۱۶۴)
آپ کے سِوائے میں تو گھر بھر میں کسی کو نہیں دیکھتا کہ وہ گھر میں رہے اور اپنا پُرانا ڈَھرّا نہ چھوڑے
(۱۸۷۷ ، توبۃ النصوح ، ۱۵۴)
پُرانے ڈھرّے کی تعلیم پانے والوں کے مقابلے میں آج ایک بھی شخص نظر نہیں آتا
(۱۹۲۳ ، عصائے پیری ، ۱۳۳)
انجائنا کا مُستقل مریض ہوگیا چنانچہ زندگی کا پُرانا ڈھرّا بدلنا پڑا
(۱۹۸۶ ، جانگلوس ، ۱۰)