کٹے ہے روز مجھے گنتے دم بدم گھڑیاں
جو شب ہو کرتا ستاروں کے تئیں شمار ہوں میں
گھڑیاں گننے لگا کہ کب اتنی رات تمام ہو.
(۱۸۸۲، باغ وبہار ، ۳۶).
کبھی گنتا نہ گھڑیاں جوشِ وحشت میں سب فرقت
نہ گھنٹا گھر اگر ہوتا الرف چاکِ گریباں کا
اس الف لیلائی ساعت کے انتظار میں بستی کی یہ دس بارہ عورتیں گھڑیاں گن رہی تھیں.
(۱۹۸۷ ، ابوالفضل صدیقی ، ترنگ ، ۲۴۲).