شہنا نوازوں نے دروازہ پر آکر شادیانہ بجایا .
(۱۹۲۳، اہل محلہ اور نااہل پڑوس ، ۲۸) .
شاہی روشن چوکی کا شہنائی نواز چاندی کی طشتری ہاتھ میں لیے حاضر ہوا نفیری پر شادیانہ بجایا .
( ۱۹۴۷، فرحت ، مضامین ، ۲: ۱۲) .
اقبال کائنات میں حرکت و تغیر کی موجودگی پر شادیانے بجاتے نظر آتے ہیں .
(۱۹۸۷، اقبال ایک شاعر، ۶۹) .