چندا کلا دھاری شری بھوانی شنکر پرشن ہوکر آئے .
(۱۸۹۰، جوگ بششٹھ (ترجمہ) ، ۱ : ۹۳).
تھا وردِ زباں نام شری رام کا ہر دم
ہر تازِ نفس پر تھا یہی نغمۂ پیہم
اپنی تباہی کے لیے ... اس کا شری نارائن نے کوئی خیال نہیں کیا .
(۱۹۸۲، آتش چنار، ۸۲۹).
مہاراجہ جہاں چکتے تھے موتی ہنس کے جوڑے
وہاں کا اب شری ٹھا کر بنا ہے کاگ کا جوڑا
دوڑا رخ فسردہ پہ جب زندگی کا نور
دی موت نے صدا کہ نمستے شری حضور
ان کی نظم نعرہ شباب کی مختلف دھنوں میں آٹھ راگ راگنیاں برتی گئی ہیں یعنی مالکوس ، بھیروں ، میگھ ملار ، بسنت ، ہنڈول ، شری ، پنچم اور نٹ راجن .
(۱۹۵۷، نکتۂ راز ، ۱۷۰).