ایک مصیبت آن پڑی ہے ... نہ نِگلتے بنے نہ اُگلتے بنے کہوں تو ماں ماری جائے نہیں تو باپ کتّا کھائے.
(۱۸۸۰ ، فسانۂ آزاد ، ۳ : ۴۳).
اس کا بیٹا جو پانچ چھ برس کا تھا اس کیفیت کو دیکھ رہا تھا اس وقت اس کی زبان سے بیساختہ یہی نکلا کہوں تو ماں ماری جائے نہ کہوں تو باوا کتّا کھائے.
(۱۹۳۷ ، قصص الامثال ، ۲۳۹).