بنائی جہاں اُس نے نخچیر گاہ
رہے صید واں آکے شام و پگاہ
نخچیر گاہِ عشق میں افراط صید سے
روح الامیں کا نام شکارِ زبوں ہوا
چاروں بزرگ زیجاہ مثل شیروں کے نخچیر گاہ ایوان اُس روسیاہ میں آئے ۔
(۱۸۵۵ ، غزوات حیدری ، ۲۲۰) ۔
کس کو لے آئی اجل یارب سوئے نخچیر گاہ
داغ کس کے خون کا ہے دامن صیاد میں