بادشاہ چھ مہینے کا جشن کرتا ہے اور انعام و اکرام ، راگ و نانچ بہت ہوتا ہے اور بادشاہوں کی مہمانی کرتا ہے ۔
(۱۷۴۶ ، قصہء مہرافروز و دلبر ، ۲۴۰) ۔
وہاں کے لوگاں ان کی مہمانی کئے
ہور گھروں میں اپنے جا ان کو دئے
مہمانیاں بتوں کی میں کرتا ہوں اے صباؔ
دیتا ہے جب مجھے میرا پروردگار کچھ
ہمام نے اٹھ کر شیخ کے پاؤں پر سر رکھ دیا ،گھر لوا گئے اور بڑی گرمجوشی سے مہمانیاں کیں ۔
(۱۹۰۷ ، شعر العجم ، ۲ : ۵۳) ۔
رفتگاں کی یاد ، منزل کے دلاسے کتنی دیر
کب تلک خواب ِوفا ، جذبوں کی مہمانی کرے