نہ کر راز بھی گئیں ہویدا وہاں
کیا ایک کوٹنی کوں پیدا وہاں
ہوویدا ہے ہونٹوں کی سرخی سے ظالم
کسی کا تو اس دم لہو تو پیا ہے
ہوویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
لہو رہ رہ کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
نیندوں میں ڈوبی آنکھیں ہی بے چینی پیدا کرتی ہیں
جو تحریکیں دل میں ہوں چھپی ان سب کو ہوویدا کرتی ہیں
ان کے اس کام کا تعارف اور علمی و نواحی سیاق و سباق اس تحریر سے ہوویدا ہے.
(۲۰۰۹ ، مخزن ، لاہور ، ۱۷ : ۱۴۱)