توں پیدا ہوا یو ہوویدا ہوئے
اول یو نہ تھے تج تے پیدا ہوئے
ہویت ہوویدا ہے تجہ راج میں
اپس کوں دکھایا ہے معراج میں
سو تارا صجح کا ہوویدا ہوا
گزر جارین دن جب پیدا ہوا
خوشید بھی نہ ہووے ہویدا سحر کے وقت
گر نام لے کوئی مرے بخت سیاہ کا
ہووے تجھ پر یہ ہوویدا ، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت و نباہے
نہ کبھی غم سےکراہے ، نہ کسی غیر کو چاہے
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہوویدا
دعائے خلیل اور نوید مسیحا
داغ لالہ میں بسکہ پیدا ہے
حسن اور عشق سب ہوویدا ہے
کمالِ نظم ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشم خاتم سے
غالب اور اقبال کے درمیان مماثلت اس رشتہ سے ہوویدا ہے جو اقبال کو گوئنے سے تھا.
(۱۹۶۹ ، توازن ، ۲۰۵)
نازی جرمنی سے ان کے نکالے جانے کی صورت میں ہویدا ہوا ہے.
(۲۰۰۲ ، نگارشات ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، ۲ : ۱۳۲)