یہ جھک ہے چھوڑئے بق بق سے مجکو نفرت ہے
یہ گفتگو نہ سہی اب کتاب سے کیجیے
حاضرین یہ جھک سن کر بہت بگڑے .
(۱۹۴۶ ، شیرانی ، مقالات ، ۹۲).
اس نے اپنی جھک میں کھانا بھی نہیں کھایا.
(۱۹۰۵ ، حورعین ، ۹۲).
میرے باپ دادا تو سودائی ہیں ویسی ہی جھک مجھ کو بھی ہے.
(۱۸۸۸ ، طلسم ہوشربا ، ۵۱:۳).
خدا جانے کیا واقعہ پیش آئے
مجھے ہے جنوں اور ناصح کو جھک ہے