گنوا عقل کیا آج جھک ماریا
مرے سر پو ٹھولا فلک ماریا
خدا اور رسول نے کہیں نہیں کہا بھلا پھر کیوں جان بوجھ کر جھک مارتے ہو.
(۱۸۲۸ ، ہدایت المومنین ، ۶).
جھک مارتے ہو ، تم بڑے جھوٹے ہو.
(۱۹۲۵ ، حکایات لطیفہ ، ۱: ۱۰۵).
لوکاں اُسے ناحق مارے جھک مارے.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱۱۵).
یہ افسوس کرتا ہے کہ ہائے کیوں میں ایسا جھک مارا.
(۱۸۹۹ ، رویائے صادقہ، ۴۹).
اب تک جو کچھ اس سلسلہ میں پڑھا تھا ، سنا تھا ، جانا تھا وہ اس جھک ماری تھی.
(۱۹۴۵ ، حکیم الامت ، ۴).
کہاں ایسا سکے ہو گو کہ جاوے تا فلک دریا
نہیں ہم چشم میرے اشک کا مارے ہے جھک دریا
بچھڑا اس دن کھو گیا تھا تین دن حیران ہوئے کہیں نہ ملا تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے.
(۱۹۳۵ ، دودھ کی قیمت ، ۶۱).
اچھے اچھے رئیسوں کو وہ چیزیں نصیب نہ ہوتی تھیں جو سید کاظم کے ہاں پڑی جھک مارا کرتی تھیں.
(۱۸۹۵ ، حیات صالحہ ، ۲۳).
جب چار کاندھے پر ہوئیں بھاری سواریاں
جھک مارتی یہ رہ گئیں ساری سواریاں
کپڑا لیتے وقت یا قطع کراتے وقت یہ باتیں دیکھنے کی تھیں اور نہیں دیکھیں تو جھک مارو اور وہی پہنو.
(۱۸۸۵ ، فسانۂ مبتلا ، ۱۳).
اس کے بعد دونوں علیحدہ ہوگئے اور عورت نے جہاں جی چاہا جھک مارا.
(۱۹۳۰ ، مس عنبرین ، ۷).