اٹھ کے اک بیس لگائے اور بھول جائے تو پھر سرے سے گنے۔
(۱۸۸۰ ، فسانۂ آزاد ، ۳ : ۶۸۰)
مری باتوں میں کیا معلوم کب سوئے وہ کب جاگے
سرے سے اس لیے کہنی پڑی پھر داستاں مجھکو
سرے سے انتخابات میں یقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔
(۱۹۷۷ ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ، ۱۷)
یہ ہی مناسب ہے کہ سرے سے نکاح نہ کرے ۔
(۱۸۶۵ ، مذاق العارفین ، ۴ : ۳۱۴)
جو چیز اخبار کی جان ہے یعنی آزادی اس کا سرے سے وجود نہیں ۔
(۱۸۹۲ ، سفر نامۂ روم و مصر و شام ، ۷۵)
ایسی کتابوں کا اوسط بھی کم نہیں ہے جو سرے سے پڑھنے کے لائق نہیں ہیں ۔
(۱۹۰۲ ، افاداتِ مہدی ، ۵۷)
اگر مبالغہ نہ ہو تو عرض کروں وہ سرے سے محنت کرنا ہی نہیں چاہتا ۔
(۱۹۸۴ ، سمندر ، ۷)