وہاں سعد بھی دوڑ چستی کِیا
اسے طالعِ سعد سُستی کِیا
شتابی نہیں کرنے کے یہ معنی نہیں کہ کاموں میں سُستی کرے .
(۱۷۴۶ ؟ ، قِصۂ مہر افروز و دلبر ، ۲۵۵)
اے ظفر کیونکہ عقیدہ میں ہو اپنے سُستی
جب کہ کردے مدد مرشدِ کامل مضبوط
سامنے والی سواری بچنے میں ذرا سُستی دِکھلاتی تو ڈلّی کی ڈپٹتی ہوئی آواز گُون٘جتی ہے ، دبے رہو ، بچے رہو .
(۱۹۸۶ ، انصاف ، ۱۰۴)
انگریزی پڑھنے سے اور علوم جدیدہ کے سیکھنے سے عقایدِ اسلام میں سُستی آ جاتی ہے .
(۱۸۸۴ ، سفر نامۂ پنجاب ، ۲۵۰)
اس شعر میں سلمان کی بندش کی سُستی صاف ظاہر ہے .
(۱۹۱۴ ، شبلی نعمانی ، حیاتِ حافظ ، ۵۲)