تمن یاد کی مستی منج کو چڑی ہے
نین من میں کھلتی خماری عجائب
آہ عجب حال اور عجائب وقت دیکھتا ہوں .
( ۱۸۳۲ ، کربل کتھا ، ۲۰۴ ).
لے عرش سے تا فرش نئے رنگ نئے ڈھنگ
ہر شکل عجائب ہے ہر اک شان تماشا
لجام آہنی منھ میں لگی تھی
سواری کیا عجائب دل لگی تھی
کیا کیا کچھ کہوں وہاں کی تو بات بات عجائب ہے .
( ۱۹۰۶ ، مخزن ، لا ہور ، اکتوبر ، ۱۹ ).
کہ جب شہزادہ گیا اس مکاں پر
عجائب جھاڑہینگے بہت بہتر
نظر آئیں وہ حالات عجائب
نہ دیکھا ہو کسی نے وہ غرائب
دربار میں اب ایسے عالم بھی آگئے تھے کہ قرابادین قدرت کے عجائب نسخے تھے .
(۱۸۸۳ ، دربار اکبری ، ۵۸ ).