کیا چھوٹے کام والے و کیا پیشہ ور نجیب
روزی کے آج ہاتھ سے عاجز ہیں سب غریب
ڈنکے والے چوب سے انگشت بدنداں نجیبوں کی وردیاں سوگ کی نشانی بے سروسامانی دلیل پریشانی ۔
(۱۸۶۶ ، جادئہ تسخیر ، ۴۹) ۔
باضابطہ سپاہی ہمیں برے ناموں سے یاد کیا کرتے تھے اور ہم کو نجیب کہا کرتے تھے ۔
(۱۹۱۰ ، سپاہی سے صوبہ دار ، ۱۲۳) ۔
اس پر داروغہ صاحب نے پہرے کے نجیبوں سے کہا کہ ہم تم کو سو روپے دیں گے ، صاحب کو دوسرے مکان پہنچا دو ۔
(۱۹۵۶ ، بیگمات اودھ ، ۲۷۰) ۔
تعداد فوج سات ہزار سوار مع ترک سوار جلوس سواری اکتالیس پٹالن تلنگہ و نجیب سوائے ہرسہ توپ خانہ ۔
(۱۸۹۶ ، سوانح حیات سلاطین اودھ ، ۱ : ۲۶۶) ۔
ان کے انفصال کو نجیبان کوتوالی کی پلٹنیں کافی ہیں اٹھارہ سو نجیب ہے بہت ہے ۔
(۱۹۱۱ ، ظہیر الدین دہلوی ، داستان غدر ، ۸۴) ۔