توں اپنی جوانی میں شہ غرق ہے
کچے ہور پُختے میں لی فرق ہے
اشک رنگین میں غرق ہے نس دن
جن نے دیکھا ہے تجھ حنا کی ادا
ہوئے مر کے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنارہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
کنیزانِ برق جمال دریائے حسن میں غرق .
(۱۹۰۱ ، الف لیلہ ، سرشار ، ۲)
سیم و زر میں غرق پالکیاں نالکیاں ساتھ ہوتیں .
(۱۹۵۶ ، بیگماتِ اودھ ، ۱۰۹)
ایک کلمے کا فرق ہے ، باقی خدا کی وحدانیت میں ہندو ہور مسلمان غرق ہے .
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱۰)
تصوّر میں تھا اُس کے اس قدر غرق
نگہ شکل اُسکی سے کرتی نہ تھی فرق
بیتابی میں ہوں غرق مجھے چین نہیں ہے
اک دم کہیں جوں برق مجھے چَین نہیں ہے
دن ہو یا رات ان ہی کی یاد میں غرق تھی .
(۱۹۳۴ ، قرآنی قصّے ، ۷۳)
انہیں ہنسی بہت کم آتی تھی ، عموماً سنجیدہ اور خیالات میں غرق رہتے تھے .
(۱۹۸۲ ، مری زندگی فسانہ ، ۱۹۳)