اشک گرم و آہ سرد عاشق کےسیں پرہیز کر
خوب ہے پرہیز جب ہو مختلف آب و ہوا
اور بیمار کرے جیسے غذا سے پرہیز
تیرے رنجور کو پیز دوا سے یوں ہے
حکیم صاحب نے علاج کیا اور پرہیز یہ بتایا کہ یہ کسی عورت کے پاس نہ جائے.
(۱۹۱۴ ، دربارحرام پور ، ۱ : ۳۱ )
پیر منع کئے سو پرہیز کرنا.
(۱۴۲۱ ، معراج العاشقین ، ۱۹ )
اس بات تی پرہیز حذر کر ، اے نظر خوب نظر کر.
(۱۵۰۰ ، سب رس ، ۵۴ )
گریہی دشت نوردی ہے تو اے دشت جنوں
خار رکھیں گے کہاں تک کف پا سے پرہیز
کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو ممتاز مقام پر بیٹھنے سے پرہیز فرماتے.
(۱۹۱۴ ، سیرۃ النبی ، ۲ : ۲۲۲ )
پرہیز اس کا پیر سیواے ہور نا دیکھنا.
(۱۵۰۰ ، معراج العاشقین ، ۲۱ )
آنکھیں کس پرہیز سے کرتی ہیں دید
جب تلک باہم چھپا ہوتا ہے عشق
اف : رکھنا ، کرنا ، ہونا.