جکوئی . . . آبِ حیات پیوے گا دُسرا خضر ہوئے گا ، اس جگ میں سدا جیوے گا.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۳۶)
زخمی ہے جلّادِ فلک تجھ غمزۂ خُوں ریز کا
ہے شور دریا میں سدا تُجھ زُلفِ عنبر بیز کا
چشم تر کے ولولے ہیں چار دن کے واسطے
اے صنم رہتا نہیں موسم سدا برسات کا
اب اس کو کفایت کہو یا اس کا شعور
عورت کا تو یہ گُن ہے سدا سے مشہور
سدا رات دن اس کوں یہی کام تھا
نہ نِس نیند نا دن کوں آرام تھا
ہم نے تو سدا شمع صفت سر ہی چڑھایا
جو آہ کا شعلہ دلِ مُضطر سے نِکالا
میں انتظارِ خط کی صعوبت سے بے خبر
تُم انتظارِ خط میں سدا مبتلا سہی