قطبا کہے دل کے بچن ہر دم مدد منج پنج تن
راکھے خدا منج کو جتن دشمن کو خواری واے واے .
خاوند کے مخالف اور دشمن ہوں تو بھی ان کا نام ذِلّت اور بتک کے ساتھ نہ لیوے .
( ۱۸۵۶ ، فوائد الصبیان ، ۶ ) .
دل بھی الفت میں مری جان کا دشمن رہتا
اب تو بہتر بھی دوست کبھی بن رہتا .
میں تمہارا رقیب نہیں ، تمہارا دشمن تو کوئی اور ہے .
( ۱۹۷۷ ، ابراہیم جلیس ، الٹی قبر ، ۱۸۷ ) .
جب آکاس پر چَڑ دھرت پر پڑیاں تو سشمن کیاں فوکاں جیتاں گر پٹیاں .
خط شیرنھ رکھتا ہے عداوت حسنِ خوباں سے
کہ جیوں خفاش ہے دشمن شعاعِ آفتابی کا
دشمن کو نہ کیوں شُربِ مدام آوے میّسر
رہتی ہے وردھر ہی نگہِ یار ہمیشہ
کتابوں کا سب پہلا دشمن خود انسان ہے .
( ۱۹۶۱، انتظام کتب خانہ ، ۵۲ ) .
کیوں یہ کس واسطے ہے ونج و محن
جان دیں اپنی آپ کے دشمن
چُھڑاتا کوئی اس سے فر ی مکاں تو دشمن یہیں اس کے دیدیتے جاں .
(۱۸۶۹، بہارِ عشق، ۳۴).
اے ہے رات بھر میں میری بچّی کا کیا حال ہو گیا دشمنوں کا رنگ زرہ بڑ گیا .
( ۱۹۰۰ ، خروشید بہو ، ۱۴ ) .
۳. (عو) دوستی کا رشتہ جو عورتیں آپس میں بدلتی ہیں جیسے جانِ من ، زناخی ، دل مِلا وغیرہ .
( فرہنگِ آصفیہ ؛ نور اللغات ) .