بھنواں کشتی منے میں یوں رہیا جیوں نوح کشتی میں
پرت دریا منے پایا پری ابی رتن پتلی
(۱۶۱۱، قلی قطب شاہ ، ک ، ۲ : ۳۲۳).
لایا ہوں نذر دل کی انگوٹھی کوں کر قبول
غم کے جڑے ہیں جس کوں رتن سر سوں پاوں لگ
سمندر کو پہاڑ سے خوب بلویا کہ اس میں سے ۱۴ رتن نکل پڑے .
(۱۸۶۸، رسوم ہند ، ۱۵).
نذر میں پیش اُنھیں پیش بہا رتن ہوئے
رتن بڑھ چڑھ کے یہ پدوی میں مہا رتن ہوئے
خواجہ الطاف حسن حالی ، سرسید کے نور تنوں کا سب سے انمول رتن تھے .
(۱۹۸۷، قومی ، زبان کراچی ، اکتوبر ، ۸۷).
رتن ہونٹاں کا پلاؤ تمیں مجھے جلاب
کہ سرتھے ہوؤں جواں اُس تھے پاوں قوتِ روح
(۱۶۱۱، قلی قطب ، ک ، ۲ : ۷۹).