۱. کسی صدمے ، حادثے یا تکلیف کا خاموشی سے برداشت کر لینا ، مصیبت کے وقت شِکوہ یا نالہ و فریاد کرنے سے باز رہنا ، مصائب یا مشکلات میں ضبط و تحمّل سے کام لینا ، برداشت ، تحمّل ، شکیبائی.
کہ یارب دے منج اس صبر کا جزا
جو بے دین کوں میں جو دیتا سزا
(۱۵۶۴ ، حسن شوقی ، د ، ۱۱۰)
محبت ، صبر منگتا ہے جو توں اوتاولا ہوے گا
ارے اے دل سمجھ یک تل کِتا توں باولا ہوے گا
(۱۶۰۹ ، قطب مشتری ، ۶۹)
ہر درد پہ کر صبر ولی عشق کی رہ میں
عاشق کو نہ لازم ہے کرے دکھ کی شکایت
(۱۷۰۷ ، ولی ، ک ، ۶۲)
میری خوشی تو یہ ہے کہ ایک دن بھوکا رہوں اور صبر کی لذّت پاؤں.
(۱۸۸۷ ، خیابان آفرینش ، ۶۶)
صبر نفس کو ناگوار امر پر روکتا ہے.
(۱۹۱۱ ، مولانا نعیم مراد آبادی ، تفسیر القرآن الحکیم ، ۱۲۳)
اپنے ملازم کے ساتھ صبر کا یہ برتاؤ کرنے والا اللہ کا بندہ مغلیہ سلطنت کا سب سے بڑا شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر تھا.
(۱۹۸۵ ، روشنی ، ۴۳۰)
۲. قرار ، چین ، سکون ، اطمینان.
دل کوں کہاں ہے دل ہے کہاں صبر اوسے
یک بُند لہو ہور اس کوں ہزار اندیشہ
(۱۶۱۱ ، قلی قطب شاہ ، ک ، ۳ : ۴۴)
سکھیاں دھن کوں پچھتیاں کر کتیاں گھر چار پر جیو رکھ
کہی جس دھیان ہے پیو کا اسے کیا کام صبّر سوں
(۱۶۹۷ ، ہاشمی ، د ، ۱۶۰)
نہیں سمجھتا اور کہتا ہے کہ ایتا صبر میرے بائیں کہاں کہ نامے کی راہ دیکھوں.
(۱۷۴۶؟ ، قصّۂ مہر افروز و دلبر ، ۶۳)
سب گئے ہوش و صبر ، تاب و تواں
دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا
(۱۸۱۰ ، میر ، ک ، ۳۹۹)
اُن کی صدا سنیں جو کان پھر تو نہ ہو جگر سے صبر
پا کے انھیں نہ ہو سکے ترسی ہوئی نظر سے صبر
(۱۹۲۵ ، شوق قدوائی ، عالم خیال ، ۳۰)
جو تخت و تاج کو چھوڑ کر مکمل قناعت صبر اور یکسوئی کے ساتھ اس کی گھنیری چھاؤں میں آ بیٹھے.
(۱۹۸۷ ، سمندر ، ۸)
۳. حلم ، بردباری.
(فرہنگ آصفیہ)
۴. (i) توقّف ، تامّل ، جلدی کرنے سے گریز.
صبر کب دیدار کا اس کے تئیں فردا تلک
سو قیامت جان پر کرتا ہے دل آج ہی مرا
(۱۷۱۸ ، دیوان آبرو ، ۴)
آداب میں تمام وہ تمدنی اور اخلاقی عمدگیاں شامل ہیں ... جیسے اخلاص ، توکل ، تواضع ... قناعت ، حب صبر.
(۱۹۲۸ ، حیرت دہلوی ، حیاتِ طیبہ ، ۲۱۴)
شیر کی بات سن کر خوف کے مارے کسان کے پسینے چُھٹ جاتے وہ نہایت ڈری ڈری آواز میں شیر سے کہتا کچھ روز اور صبر کر لو.
(۱۹۷۸ ، براہوی لوک کہانیاں ، ۸۷)
(ii) نفس کو روکنا.
اس کا شہوت سوں صبر اس کا پانچہ خواص کا مراقبہ باندنا پیر کے واحد الوجود کا مشاہدہ کرنا.
(۱۴۲۱ ، خواجہ بندہ نواز ، معراج العاشقین ، ۲۱)
صبر اور بے حمیتی توکل اور کاہلی . . . باہم اس قدر ملے ہوئے ہیں کہ انسان کی قوّتِ ممیّزہ کبھی کبھی دھوکا کھا جاتی ہے.
(۱۹۲۳ ، سیرۃالنبیؐ ، ۳ : ۸۸)
۵. (i) قناعت ، اکتفا.
دشنام کی بھی آپ سے کس کو امید تھی
ہم نے تو اُس پہ صبر کیا جو عطا ہوا
(۱۸۹۲ ، مہتاب داغ ، ۴۴)
غمِ فرقت میں غم کھا کر ہی اپنا پیٹ بھرتے ہیں
جو کچھ ملتا ہے ہم کو ہم اسی پر صبر کرتے ہیں
(۱۹۳۶ ، شعاعِ مہر ، ناراین پرشاد ورما ، ۲۱۷)
(ii) توکُل ، بھروسہ.
(فرہنگ آصفیہ)
۶. قدیم عرب میں سزا کا ایک طریقہ جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آدمی کو کسی کوٹھڑی میں قید کر کے اس کا کھانا پانی بند کردیتے تھے یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا تھا.
(سیرۃالنبیؐ ، ۴ : ۱۹۲)
۷. (تصوّف) طلب اور محبتِ معشوقِ حقیقی میں ثابت قدم رہنا اور اس کی یافت اور محنت اُٹھانا اور نالاں نہ ہونا.
(مصباح التعرف ، ۱۵۸).
۸. وبال ، آفت ، عذاب (جو کسی ظلم وغیرہ کی پاداش میں خدا کی طرف سے نازل ہو).
کیا اس گھر میں چرچا جس نے میری آہ و زاری کا
الٰہی صبر اس کی جان پر اس بیقراری کا
(۱۸۰۹ ، جرأت ، ک ، ۱ : ۷۱)
غضب رحمت سے دل توڑا ہے واعظ میگساروں کا
ستمگر صبر تیری جان پر امیدواروں کا
(۱۸۹۹ ، دیوان ظہیر ، ۱ : ۱۱)
[ ع ]
اہم اطلاع
اردو لغت بائیس ہزار صفحوں پر مشتمل ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ کا ذخیرہ ہے . اسے اردو زبان کے جیّد اساتذہ نے 52 سال کی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے .
زیر نظر ویب سائٹ انسانی کاوش ہے لہذہ اغلاط کے امکانات سے مبرا نہيں ، آپ سے التماس ہے کہ اغلاط کی نشان دہی میں ہماری معاونت فرمائیں .
نشان دہی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر رابطہ کے ان باکس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں .