جسے خیال ہے کچھہ رحمت الٰہی کا
گناہ سمجھے ہے دعویٰ وہ بیگناہی کا
شاید اس کتاب کا مطالعہ ان مسائل کے صحیح فہم میں کچھہ مدد دے سکے.
(۱۹۴۶ ، معاشیات قومی ، ب)
بی وفادار جن کو تم کچھ اور بھائی صاحب خوب جانتے ہیں اب تمہاری پھوپھی نے انہیں وفادار بیگ بنا دیا.
(۱۸۶۲ ، خطوط غالب ، ۸۱)
جابجا کچھ درخت مختلف قسم کے لگے ہوئے تھے.
(۱۹۰۰ ، شریف زادہ ، ۱۲۶)
کچھ بیٹھے ہیں کچھ پھرتے ہیں ، دو بھی کچھ کے معنوں میں آتا ہے اور قلّت کا مفہوم رکھتا ہے.
(۱۹۷۳ ، جامع القواعد (حصہ نحو) ، ۱۰۲)
خدا جب جسے کچھ دلاتا اہے
توں شاہاں کے بی دل میں لیاتا ہے
ایک بار خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی بغل میں کچھ نکلا.
(۱۸۷۹ ، مقالات حالی ، ۱ : ۱۲۹)
اس وقت بھکا ہوں کچھ کھلوائیے.
(۱۹۲۹ ، نور اللغات ، ۳ : ۷۴۱)
جب کیا قصد کہ میں دل سے بُھلادوں مے کو
موسم گل ووہیں کچھ یاد دلاتا ہے مجھے
بیخودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
جو کچھ کہا سب سنا.
(۱۹۷۴ ، جامع القواعد (حصہ نحو) ، ۷۳)
کہا اس نے بی تم کو سودا ہے کچھ
وہ معشوق ہے اسکو پروا ہے کچھ
بھائی یہاں ہاتھی کُجا ، یہ بھی ہندوستان ہے کچھ یاں ایک بات ہو سکتی ہے کہ خچر پر ایک جھنڈی رکھوادیں.
(۱۸۸۰ ، فسانۂ آزاد ، ۲ : ۲۸۱)
یو مردانِ حق کچھ خدا تو نہیں
و لیکن خدا سے جدا بھی نہیں
باپ کے متروکہ میں سے بیٹے کو تلوار کے سوا اور کچھ نہ ملتا تھا.
(۱۸۹۷ ، یادگار غالب ، ۹)
کچھ ہزاروں لاکھوں کی آمدنی نہیں ، پچاس ساٹھ روپیہ کا کرایہ ، شہر کا خرچ ، بھاری پتھر آگے.
(۱۹۰۸ ، صبحِ زندگی ، ۱۹۹)
وہ اخفائے رازِ محبت کی خاطر
کبھی کچھ بہانہ کبھی کچھ بہانہ
عزیزو اُس کو جو لاتے نہیں تو کچھ لا دو
میں کیا کروں کہ بہت میں تو بیقرار رہا
قتل اُس کو اگر کیا لا کے
میں بھی کچھ سور رہوں گی اب کھا کے
عجب کیا جو وہ چشم عیار و پرفن
سلادے کسی دن مجھے کچھ کھلا کر
نہ تھا وہ یوسف ثانی کچھ آگاہ
کہ میرے سامنے خندق ہے یا چاہ
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
کچھ خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ چڑھ سی گئی.
(۱۹۵۴، شاید کہ بہار آئی ، علی عباس حسینی، ۲۹)
عدو سے کچھ کہا اور مجھ سے آکر کچھ کہا تو نے
نہ کیوں کر فرق دل میں سن کے ایسی بات پڑجاتا
وہ نہ سنتا ہے مری اسکی سمجھتا ہوں نہ میں
میں تو کچھ کہتا ہوں کہتا ہے مرا غم خوار کچھ
کہ انگے کے آن ہارے ، ہمیں بھی کچھ تھے کر سمجھیں بارے.
(۱۶۳۵، سب رس ، ۸)
عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ میں بھی اپنے آپ کو کچھ سمجنے لگوں.
(۱۹۴۷، فرحت ، مضامین ، ۳ : ۱)
نظر ملتے ہی وہ کچھ ہو گیا جو کچھ کہ ہونا تھا
پشیماں ہو فہا ہے دیدۂ انجام ہیں کیا کیا
کبھی کرم ہے کبھی ستم ہے کبھی وفا ہے کبھی جفا ہے
گھڑی میں کچھ وہ گھڑی میں کچھ وہ یقین ہے کیا اُسکی دوستی کا
جو کہتا ہوں اس سے کہ سن شعر میرے
تو کہتا ہے ، کیا کچھ سُنا چاہتا ہے
اس کے حق پہچاننے کی تھوڑی سی باتیں کیے ہیں کہ پہلا احسان تو اس کا یہ ہے کہ جو کچھ نہ تھا سو اُسے کچھ کیا.
(۱۷۴۶؟ ، قصۂ مہر افروز و دلبر ، ۲۴۴)
اے دوستو اس شوخ کا میں کیا کہوں عالم
دچھ آج وہ دیکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مال و اسباب ، جاگیر مکانات سب کچھ بک گیا تھا.
(۱۹۷۳، جامع القواعد (حصہ نحو) ، ۵۵)
گھونٹ کر کھوپڑی تم شیخ جی داڑھی کو منڈاؤ
کچھ یہ آئینہ نہیں جس کو نمد پوش کرو
یہ پہیلی کچھ میں نے ہی نہیں بوجھی کہ ناحق کی شیخی مارنے لگوں.
(۱۸۹۹، رویائے صادقہ ، ۱۶۲)
صفت کروں کچھ اپنا پیر
جس تھے روشن ہوئے ضمیر
کیا جنید اور شیخ اکبر صوفی کامل نہ تھے
کیا غزالی اور بسطامی کچھ اہل دل نہ تھے
پ
[ پ : # ؛ س : # ]