شمس کا پرتو قمر جیسے دستا .
(۱۶۳۵، سب رس ، ۲۶۷) .
شرمندہ ہو تجھ مکھ کے دکھے بعد سکندر
بالفرض بناوے اگر آئینہ قمر کا
تیرے جلوے سے حسینوں کا ضرر ہوجائے گا
روبرو جب شمس آویگا قمر ہوجائے گا
تکتے رہنا ہائے وہ پہروں تلک سوئے قمر
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر
کیوں کروں انتظارِ شمس و قمر
دل ہے آماجگاہِ لیل و نہار