جوں کافور مل گیا جوت میں یا نمک جوں در آب
(۱۵۸۲ ، کلمۃ الحقائق ، ۱۰۲)
کھانے میں نمک نہیں تو بھی سواد نہیں ہوتا ہے
(۱۶۰۳ ، شرح تمہیدات ہمدانی ( ترجمہ) ، ۱۸۷)
نمک ڈالا تو زہر اور کبھی پھیکا پانی
(۱۸۶۸ ، مراۃ العروس ، ۸۶)
معلوم ہوتا ہے کہ زمانہء قدیم کے وحشی کھانے میں نمک ڈالتے تھے
(۱۹۹۲ ، نگار ، کراچی ، دسمبر ، ۱۰۳)
سیم و تھور زدہ زمین کو دوبارہ زیرکاشت لانے کے لیے ٹیوب ویل کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیر زمین پانی کی سطح کو کم کیا جاسکے اور تھور زدہ علاقے سے نمک دور کیا جاسکے
(۱۹۶۹ ، پاکستان کے ایندھن کے وسائل ، ۱۴)
تبسم کیا باہزاراں نمک
آیا او بہ نزدیک شاہِ سمک
یوں تجھ نزک خجل ہے نمک ہر جمال کا
روشن صبح کوں دیکھ پشیماں ہے جیوں چراغ
ہند کا مول ہو اس شہر کی بستی کا سواد
لے سوادِ خط ِخوبان ِچگل اس سے نمک
یہ نمک یہ چھب یہ سج دھج یہ ادا کو دیکھ تیری
بتلاطم تحیر ہوئے غرق ہوش منداں
رنگ تو کسی قدر سانولا تھا مگر ناک نقشہ قیامت کا پایا تھا ، اس پر نمک اور جامہ زیبی شوخی ، شرارت کوئی بات۔۔۔۔۔! ۔
(۱۸۹۹ ، امراؤجان ادا ، ۷۷)
بے مزا کر کے رہی دل کو وہ پھیکی سی ہنسی
لب کو چھو بھی نہ گیا چہرۂ زیبا کا نمک
دیکھا کیسا نمک ہے چہرے پر میں کیا کہوں ، اس کے سامنے گوری پھیکی پیاز
(۱۹۶۹ ، افسانہ کردیا ، ۲۸)
جو نمک تجھ میں ہے کہاں اُوس میں
کیوں نہ پھیکا ہو رنگ سونے کا
نمک تلک نہیں چہرے کا رنگ و آب گیا
خزاں چمن میں ہوئی موسم شباب گیا
جوں نمک نیں سوکھانا ، بے نمک کھانے تے آدمی نے کیا سواد پانا
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۲۷)
کرے گا نمک شاہ تیرا یو کام
کہ میں کیا ہوں یو کام کرنے تمام
خوفِ خدا تو کر کے برائی تو اپنی چھوڑ
کھایا نمک ہے جس کا نمکداں نہ اس کا توڑ
مجھ کو خدا نے تمھارے یا اُن کے نمک کا شرمندہ نہیں کیا
(۱۸۹۹ ، رویائے صادقہ ، ۷۶)
میں نے بچپن سے تمہارے ہاں کا نمک کھایا ہے
(۱۹۸۲ ، بند لبوں کی چیخ ، ۱۱۷)
معانی کی باتاں تھے جھڑتا نمک
جے چاکھے کہے ہے نمک سوں شکر
کانوں کو حسن صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
حقی کی غزل میں ہر جگہ سچائی کی تاثیر پائی جاتی ہے اس میں رس بھی ہے اور نمک بھی
(۱۹۷۶ ، سخن ور (نئے اور پرانے) ، ۱۷۳)
ایسے ہی خطوط تو ہمارے اس کالم کا نمک تھے
(۱۹۹۸ ، قومی زبان ، کراچی ، اگست ، ۲۴)
ناز و کرشمہ ویسا سج دھج غضب یہ جس میں
اور یہ نمک یہ گرمی یہ خوش ادائیاں ہوں
عشق میں بدنامی جوں کھانے میں نمک
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۳۸)
تم زمین کے نمک ہو
(۱۸۱۹ ، انجیل مقدس (ترجمہ) ، ۸)
نیوراسیوں کو زمین کا نمک اور کائنات کا خلاصہ قرار دیا ہے
(۱۹۶۹ ، نفسیات اور ہماری زندگی ، ۵۰۲)
ف