لاہوت نگری دیس ہمارا گہاں نہیں جس ٹھانھاں
ایک اکیلا کروں تجلی ہنس ہنس ہوئیں آپس مانھاں
نیہہ کی نگری میں چڑ دل تخت جیوڑا جا کہیا
لامکاں میں کا مکاں بی آج دستاسب منجے
پکڑیا ہے جسے یونان نگری
تس کوں او ہے دور تیوں یو بکری
دل کی نگری ضبط کرنی مرد مک سیں دور نئیں
کوت تیلی میں انکھیاں کی آج پھر تاراج ہے
نگری آباد ہے بسے ہے گاؤں
تجھ بن اوجڑ پڑے ہیں اپنے بھاؤں
وہ چیرا چیری بھی خوشدل اور نوکر چاکر خوش پھرتے
اُس نگری کے طالع چمکے ، اُن لوگوں کے بھی بخت کھلے
بے وطن بیچارہ ہوں غربت زدہ ہوں لو خبر
یہ صدا لب پر ہے نگری میں تمہاری اے صنم
ہم حرص و ہوا کو چھوڑ چکے اس نگری سے منھ موڑ چکے
ہم جو زنجیریں توڑ چکے تم لا کے وہی پہناتے ہو
اُجاڑو نہ پھر سے خدارا اُجاڑو
مرے دِل کی نگری میں خیمے نہ گاڑو
نام جنت کا تم نے سنا ہے ، میں نے اس کا نظارہ کیا ہے
میں یہاں سے تمھیں کیا بتا دوں ، ان کی نگری کی گلیوں میں کیا ہے