میرے دل میں ہور شک حسن کے دل میں ہور گمان.
(۱۶۳۵، سب رس، ۲۵۵).
آنکھیں تو ہور دستیاں دل میں تو بھید کچھ ہے
باتاں تو ہور کچھ ہیں مقصد بھی ہور ہوئے گا
سوادِ شبی میں وہ یوں دور ہو
کف پا برہنہ ہو رخ ہور ہو
فسطائیوں اور نازیوں کی فتنہ گری سے
چرچل ہیں سراسیمہ تو وحشت زدہ ہیں ہور
اُسے عشق اُس نار کا زور ہے
دیوانا ہوا فکر اسے ہور ہے
ولی دیکھا جو اس انکھیاں کے ساقی کن دو جام مے
ہوا ہے بے خبر عالم سوں ہور خواہان جام اس کا