۱. نار ، آتش ، شعلہ ، عناصر اربعہ میں سے ایک عنصر کا نام.
جوں کی لکڑی بھیتر آگ
بھڑکا ، نیکلیا ، جیوں کی جاگ
(۱۵۸۲ء کلمۃ الحقائق ، ۲۶)
جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے
اُسے پھر خاک میں پایا سحر تک
(۱۸۱۰ء میر، کلیات ،۱۹۹)
آگ کی جستجو میں جانا اور پیغمبری لیکر پلٹنا موسیٰ کے وقت سے اس وقت تک تو کبھی دیکھا نہیں گیا.
(۱۹۲۴ء مکتوباتِ نیاز، ۱۴۱)
۲. دھوپ کی تیزی ، سخت گرمی ، لو.
حذر کہ آہِ جگر تفتگاں بلا ہے گرم
ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا ہے گرم
(۱۸۱۰ء میر ، ک ، ۲۰۸)
آگ برسائے فلک یا آب حیوان بہار
زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے پشیمان بہار
(۱۹۵۷ء یاس ،گنجینہء ، ۳۹)
۳. تپش ، حدّت جو جسم کے اندر خون میں محسوس ہو.
حال گرمی محبت کا نہ پوچھو ہم سے
آگ رہتی ہے دماغوں میں تپش جانوں میں
(۱۸۳۶ء ریاض البحر ، ۱۵۶)
۴. سوزش ، تپک ، جلن.
اس مرہم سے تو پھوڑے میں آگ پڑگئی.
(۱۸۹۱ء امیر اللغات ، ۱۴۹:۱)
۵. آتشک کا مرض ، باؤ فرنگ.
اس کے حسن پر نہ جاؤ آگ میں پھک رہی ہے.
(۱۸۹۱ ء، امیر اللغات ، ۱ : ۱۴۹ )
۶. چوپراہٹ ، جھال.
کبابوں نے توزبان سے حلق تک آگ لگادی.
(۱۸۹۱ ء، امیر اللغات ، ۱ : ۱۵۵ )
۷. سوز و گداز ، لگن ، عشق و محبت کا جوش.
آگ فراق زور کرے بیجلی نمن
آچھوں وو داغ کہنہ سو آباد کرتا ہے
(۱۶۱۱ ء، قلی قطب شاہ ، ک ، ۲ : ۲۵۵ )
دن رات میری چھاتی جلتی ہے محبت میں
کیا اور نہ تھی جا گہ یہ آگ جو یاں دابی
(۱۸۱۰ ء، میر ، ک ، ۲۷۲ )
چاہتے تھے کہ جو جوش اور آگ ان میں ہے وہی دوسروں میں بھی ہو.
(۱۹۲۵ء ، ہمعصر ، ۹۵ )
۸. مامتا ؛ خون کا جوش.
اب آگ میری کو ک کی کیونکر یہ بجھے گی بے طرح ہے بھڑکی
(۱۸۱۲ء گلِ مغفرت ، ۱۰۱)
۹. شوق یا اشتیاق کی شدت.
عقیقوں سے سنا ہوں بجھتی ہے پیاس
عقیق لب سے بھڑ کے بوسے کی آگ
(۱۷۷۴ء ، تصویر جاناں ، شفیق ، ۳۳ )
دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے
نئے سر سے پھر آگ برسا گئے
(۱۸۳۶ء ریاض البحر ،۱۹۳)
۱۰. غصہ ، جھون٘جھل.
جو اتنا گرم ہو کر آج تو اے شعلہ خو آیا
ہوا خواہوں نے تیرے آگ کچھ بھڑ کائی ہو وے گی
(۱۸۴۹ء کلیاتِ ظفر ، ۱۰۷:۲)
۱۱. حسد ، جلن ، جلاپا
ہماری عشق بازی دیکھ کر یہے لوگ جلتے ہیں
لگن ہے دل ہمارے کی مگر یہ آگ کالگنا
(۱۷۱۸ء دیوان آبرو ، (۱) (ق) ،۹)
سَوت کی آگ بجھے سوت کے بچوں سے جلی
ان جہنم کے شراروں کی شرارت نہ گئی
(۱۸۷۹ء جان صاحب ، د، ۲۶۵:۲)
۱۲ . فتنہ و فساد ، ہنگامہ.
غدر میں جو ہزاروں جانیں تلف ہو گئیں یہ آگ میرٹھ سے اٹھی تھی.
(۱۸۹۱ء امیر اللغات ، ۱۴۵:۱)
ابن رشد سے جن لوگوں کو حسد تھا . . . ان لوگوں نے اس آگ کو اور بھڑکایا.
(۱۹۱۴ء شبلی ، مقالات، ۳۷:۵)
۱۳. عداوت ، کینہ ، دشمنی.
یہ آگ کیا بن سر پھڑوائے بجھے گی.
(۱۸۹۵ء فرہنگِ آصفیہ ، ۱۹۴:۱)
خدا معلوم تمیزاً کو سوکن کے بچوں کی ایمی کیا آگ پڑی تھی کہ ہر وقت ان کی بربادی پر کمر بستہ تھی.
(۱۸۹۵ء حیاتِ صالحہ ، ۱۴۸)
۱۴. بھوک پیاس کی شدت.
دل تفتگی نے مارا مجھے کو کہاں مژہ دے
اک قطرہ آب تامیں اس آگ کو بجھاؤں
(۱۸۱۰ء میر ، ک ، ۲۱۰)
۱۰ . خواہشِ نفسانی ، شہوت ، ہوس
آشناؤں کو تو بلاتی ہے اور اپنا رنگ جماتی ہے ، ترے جسم میں آگ بھری ہے.
(۱۹۰۲ ء ، طلسم نو خیز جمشیدی ، ۳ : ۹۸ )
۱۶. چمک دمک ، روشنی.
وہاں ہے آب رخ یاں آتش دل
جدھر دیکھو ادھر ہے جلوہ گر آگ
(۱۸۵۱ء مومن ، ک ، ۸۳)
اہم اطلاع
اردو لغت بائیس ہزار صفحوں پر مشتمل ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ کا ذخیرہ ہے . اسے اردو زبان کے جیّد اساتذہ نے 52 سال کی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے .
زیر نظر ویب سائٹ انسانی کاوش ہے لہذہ اغلاط کے امکانات سے مبرا نہيں ، آپ سے التماس ہے کہ اغلاط کی نشان دہی میں ہماری معاونت فرمائیں .
نشان دہی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر رابطہ کے ان باکس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں .