حضرت نبی دشتی کرے دل قطب نت تج سوں دھرے
بس دن ترا سیوا کرے، حق گیان کا سوکھان توں
ثنا ہے حضرتِ مخدومِ دیں سید محمد کا
کے ہے یو عاشقِ سرمست جامِ قربِ ربّانی
دیکھ لے نامہ مرا آہن کو کردیتا ہے موم
ہو جو منکر حضرتِ داؤد کے اعجاز کا
حضرت جوش ایک مستعد پُر جوش اور جدت پسند شاعرِ و نثّار ہیں
(۱۹۴۸ ، ادبی تبصرے ، ڈاکٹر عبدالحق ، ۱)
خاندانی اعتبار سے حضرت جام نوائی بدایونی کا تعلق بدایوں کے مشہور خانوادۂ شیوخ حیدری سے ہے
(۱۹۸۴، تنقید و تفہیم، ۱۵۸)
حضرت جو خدا سوں ملنے گئے تھے معراج کی رات، تو پردے میں تی یوں آئی بات
(۱۶۳۵، سب رس، ۱۰۵)
سُنی حضرت نے یارو یہ کہانی
اگر سمجھیں زراو نکتہ دانی
شاداب مدینہ ہوا حضرت کی دعا سے
ہر سو جو میں خرما کے شجر دیکھ رہا ہوں
ابامِ طفلی سے بود و باشِ حضرت شاہجہاں آباد میں رہی تھی
(۱۸۴۶ ، تذکرۂ اہل دہلی ، ۱۳۱)
اے حضرتِ بخت کیا یہ شر ہے
بایاں قدم آپ کا کدھر ہے
مکتب سے نکالے گئے اب منھ کسے دکھائیں
اے حضرتِ دل آؤ کہیں اور نکل جائیں
کسی طرح نہ میں حضرت کے ہاتھ آؤں گا
ملوں کا غیر سے اور آپ کو جلاؤں گا
دوستوں نے انھیں حضرت کو خضر سمجھا ہے
ان کی چالیس تو لیے جاتی ہیں اغدا کی طرف
خوشیاں شادیاں اسی مولود تے ہوتیاں ہے ظاہر
زباں قاصر ہے حضرت وصف کہنے انوری کا
اے حضرت ! پیچھے ہٹنا تو دشوار ہے
(۱۸۹۸ ، سرسید ، مضامین سرسید ، ۱۸)
ایک دن میں نے جب شیخ سے عرض کیا حضرت میں نے کیاریوں میں جو یہ گلاب لا رکھے ہیں ایک دن . . . پھول نظر آئیں گے
(۱۹۵۶ ، شیخ نیازی ، ۷۴)
چھین لوں میں جو کہ ہووے بید رنگ
ہے مری حضرت میں یہ ناموس و ننگ
رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
مولوی موید الدین صاحب . . . اوس حضرت میں میرے مقرب ہیں
(۱۸۶۹ ، غالب (غالب کی نادر تحریریں ، ۹۵))
کون تھا جو حضرتِ باری میں دیتا کچھ مدد
وہ تو یہ کہیے وسیلہ درمیانی مل گیا