ملکہ نے کہا کیوں اس قدر بیقرار ہوتا ہے وقت جنگ ہم ہنستے ہیں اور تو اپنے نصیبوں کو روتا ہے ۔
(۱۸۹۱ ، طلسم ہوش ربا ، ۵ : ۲۸۳) ۔
جنگل جنگل کی خاک چھانتیں منزلوں مصیبتیں اٹھائیں نصیبوں کو روتی چلی جاتی تھیں ۔
(۱۹۱۴ ، فسانہء دل فریب ، ۵) ۔
کئی کئی دن تک سمندروں کا نمک پھانک کر کراچی ہی کے کسی غیر آباد ساحل پر اتر کر اپنے نصیبوں کو روتے رہ جاتے ہیں ۔
(۱۹۹۱ ، کانا پھوسی ، ۱۱۰) ۔