کوئی ایسی عورت ہو جو اپنے خاوند سے آزاد ہوناچاہتی ہو وہ ہمارے آگے آئے اور ہم پر نظر ڈالے کیونکہ ہم کو دیکھنا بس نصیبہ کا کھلنا ہے ۔
(۱۸۹۱ ، قصہء حاجی بابا اصفہانی ، ۱۸۷) ۔
ان بیچاری بدھیبتوں کا کسی نہ کسی طرح نصیبہ کھل ہی جاتا ہے ۔
(۱۹۴۷ ، فرحت ، مضامین ، ۴ : ۱۳۶) ۔
نصیبہ یوں ہی کھلتا ہے اختر باجی ، اللہ گھر بیٹھے بھیجتا ہے میں نے بات مذاق میں اڑانا چاہی ۔
(۱۹۶۱ ، تیسری منزل ، ۲۸۰) ۔
یہ کہو نصیبہ کھل رہا ہے ۔
(۱۹۸۱ ، چلتا مسافر ، ۷۶) ۔