’’دو تین سال کا عرصہ گزرتا ہے کہ جہان فانی کو وداع کیا‘‘ ۔
(۱۸۴۶ ، تذکرئہ اہل دہلی ، ۵۱) ۔
مجھے وداع کرنے آئے تھے ۔
(۱۹۳۱ ، سیاحت ممالک اسلامیہ ، ۲۱۹) ۔
ہمیں ہنسی خوشی وداع کرو ۔
(۱۹۷۶ ، زرد آسمان ، ۱۷۸) ۔
ہیڈ کلرک ۔۔۔۔ ہمیں وداع کرنے کے لئے اٹھا ۔
(۱۹۸۶ ، (محمد خالد اختر) کھویا ہوا افق ، ۱۲) ۔
وہ مجھے پیرس تک وداع کرنے کے لیے آئی ۔
(۱۹۹۷ ، میرے جیون کی کچھ یادیں ، ۱۱۶) ۔
ان شاء اللہ زندگی بہ خیر چھ مہینے کے اندر ہی اندر میں وداع کردوں گی ۔
(۱۹۰۸ ، اقبال دلہن ، ۱۱۱) ۔
ایک اجنبی گھر کے لیے وداع کر دینے کا لمحہ ، میرے گھر میں اس کی موجودگی کے اٹھارہ برسوں پر چھا گیا ۔
(۱۹۹۴ ، افکار ، کراچی ، اپریل ، ۶۲) ۔