بختاں (بختیار) بیگ دوز بھائی کہ توپ خانہ کا کار فرما تھا اور سیف خاں و اکرام خاں کا پیشرو تھا پیاپے زخم کھا کر دنیا سے وداع ہوا ۔
(۱۸۹۷ ، بادشاہ نامہ ، ۶۲) ۔
ہوئے ہیں جمع رئیسانِ شہر کلکتہ
وداع ہوتے ہیں یاروں سے حضرتِ رنجور
میں اپنی آواز کھو رہا ہوں
وداع اب تم سے ہو رہا ہوں
یہ دونوں میاں بیوی اس دنیا میں خوش و خرم رہیں گے مگر تم جانتی ہو کہ جس وقت بچی دلہن بن کر میکے سے وداع ہوتی ہے تو سسرال میں ہر متنفس غیر اور پرایا ہوتا ہے ۔
(۱۹۳۱ ، سیدہ کا لال ، ۲۷) ۔
چاہے کچھ تیاری ہو یا نہ ہو نجمی کی وداع انھیں چھٹیوں میں ہونی چاہیئے ۔
(۱۹۴۲ ، تصویر ، ۱۶۵) ۔
وداع ہوتے وقت جو پریشانی ، جو فکر ، جو اضطراب تھا اب نام کو نہیں ۔
(۱۹۴۸ ، سولہ سنگار ، ۴۴) ۔
بیٹی وداع ہوگئی تو اب اس کا میکے میں کیا کام ۔
(۱۹۹۰ ، دلی دور ہے ، ۶۴) ۔