کوئی بزرگوار خواجہ بو علی . . . سے خوب کہے ہیں.
( ۱۶۲۸ ، شرح تمہیدات ہمدانی (ترجمہ) ، ۲۳۰ )
ہر چند سب لوگ یہاں کے قہر ہیں مگر یہ بزرگوار زینت شہر ہیں
( ۱۸۲۴ ، فسانۂ عجائب ، ۱۱ )
یہ تصویر ایک پرانے فیشن دار بزرگوار کی ہے
( ۱۹۴۶ ، شیرانی ، مقالات ، ۲۲ )
عرش خدا ہے تیرے شرف سے بزرگوار
کرسی ترے قدم کی بدولت ہے پائیدار
میرے خاوند اپنی قوم کو اپنی میراث کو . . . تو نے اپنی بزرگواری سے نجات بخشی.
( ۱۸۲۲ ، موسیٰ کی وریت مقدس ، ۷۲۵ )