جو جل میں کے جانور یو سارے
مامور ہے امر کے تمارے
کوئی استاد ہے کوئی شاگرد کوئی آمر ہے کوئی مامور۔
( ۱۸۹۶ ، لکچروں کا مجموعہ ، نذیر احمد ، ۲ : ۷۱ )
اے عزرائیل آگے آ اور جس کام پر کہ مامور ہوا ہے عمل میں لا۔
( ۱۷۳۲ ، کربل کتھا ، ۶۹ )
تعلیم پہ ہو کے میری مامور
بہبود رکھے تھے میری منظور
ایک شفا خانہ شیراز میں بنوایا اور بڑے بڑے حاذق طبیب اس پر مامور کیے۔
(۱۸۸۶ ، حیات سعدی ، ۳۸ )
صفوان بن اُمیّہ ۔۔۔۔ نے عمیر بن وہب کو انعام کے وعدہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر مامور کیا تھا.
( ۱۹۱۴، سیرۃ النبی ؐ ، ۲ : ۳۶۱ )
فیض ان کی تعبیریں پاکستان کی عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے تھے مگر ان کے حریف ان خوابوں کے قتل پر مامور تھے۔
(۱۹۸۸ ، شاعری اور سیاست ، ۷۵ )
آپؐ نے نام پوچھا عرض کی کعب فرمایا تم ہی ہو جس نے مجھے مامور ( آسیب زدہ ) کہا تھا ، جواب دیا میں نے مامون کہا تھا نہ کہ مامور ۔
( ۱۹۵۶ ، فاران ، کراچی ، جنوری ، ۲۸۱ )