وہ آنکھوں کی مستی وہ مژگاں کی نوک
کرن پھول کی اور بالے کی جھونک
جو جائے کبھی سیر کو وہ صحن چمن میں ؛ حرکت سے صبا کی سو بار کمر جھوک سے چوٹی کے لچک جائے ؛ اللہ ری نزاکت
(۱۸۶۴ ، دیوان حافظ ہندی ، ۱۹)
اس جھوک ہی میں ہاتھ مع تیز ٹوٹ جائے
گردن کٹاوے مفت گرے بس کہ ہو نڈھال
نازکی نے ان کی آسانی میری دشوار کی
دہرے ہو جاتے ہیں اکثر جھوک سے تلوار کی
ترازو کا بھی یہی حال ہے کہ علاوہ جھوک کے صرف پاسنگ میں ہم سیر بھر اڑا لیتے ہیں.
(۱۸۶۴ ، جوہر عقل ، ۴۹)
ہوا کے جھوک سے خم ہوویں شاخیں
یہ رتبہ تو نہ پتھر سخت کو ہے
اونچے اونچے پیڑ تھرّانے لگے
جھوک سے جھونکوں کی چرّانے لگے
بارش گریہ نے ہے لا کر دیا پانی جھکا
ورنہ تھی اتنی کہاں مژگاں کے پر نالے کی جھوک